مہاراشٹراسٹیٹ اسٹوڈنٹ پیرنٹ فیڈریشن ( ایم ایس ایس پی ایف) نے آر ٹی آئی کے ذریعے معلومات حاصل کی توپتہ چلا کہ ممبئی کے ۲۶۱؍ دیگر بورڈ ( آئی سی ایس ای، سی بی ایس ای اور آئی جی )کے اسکولوں کےتدریسی اور غیر تدریسی عملے کا تقرر ریاستی محکمہ تعلیم کی منظوری کے بغیر کیا گیا ہے ۔ اس سے مبینہ طورپرعملے اور طلبہ کا ذاتی نقصان ہورہاہے۔یہ اسکول والدین سے فیس کے نام پر بڑی بڑی رقم وصول کر رہے ہیں جبکہ اساتذہ کو مبینہ طورپرمعمولی تنخواہیں دے رہے ہیں۔ دوسری جانب قابل اساتذہ کا تقرر نہ ہونے سے طلبہ کی پڑھائی متاثرہونے کا خدشہ ظاہرکیاگیاہے۔ چائلڈ رائٹس کمیشن نےاس ضمن میں محکمۂ تعلیم سے منظوری نہ لینے کی تحقیقات کا حکم جاری کیاہے۔
مہاراشٹر ایمپلائزآف پرائیویٹ اسکول (ایم ای پی ایس )ایکٹ ۱۹۸۱ء کے مطابق ممبئی کے تمام ۲۶۱؍ پرائیویٹ آئی سی ایس ای، سی بی ایس ای اورآئی جی بورڈ اسکولوںنے تدریسی اورغیر تدریسی عملے کیلئے محکمہ تعلیم سے منظوری حاصل نہیں کی ہے۔ اس بات کا انکشاف ایم ایس ایس پی ایف کو آر ٹی آئی سے حاصل کی گئی معلومات میں ہوا ہے۔
ایم ایس ایس پی ایف کے نتن دلوی نے انقلا ب کو بتایاکہ ’’اس رپورٹ کے سامنے آنے پر ہم نے محکمۂ تعلیم، محکمۂ سماجی انصاف، درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کمیشن اور مہاراشٹر اسٹیٹ کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس سےشکایت کی تھی۔ اس شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے مہاراشٹر اسٹیٹ چائلڈ کمیشن نے ڈپٹی ڈائریکٹر آف ایجوکیشن، ممبئی کواس معاملہ کی تحقیقات اور رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیاہے۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں انہوںنے یہ بھی کہاکہ ’’ایم ای پی ایس ایکٹ کے مطابق تمام پرائیویٹ اسکولوں کو اپنے اساتذہ کی ذاتی معلومات محکمہ تعلیم کوفراہم کرکے ان کے تقرر سےمتعلق منظوری لینا ضروری ہے۔ ان تمام اسکولوں کے اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کوجس طرح سرکاری امدادیافتہ اسکولو ںکے عملے کوتنخواہ دی جاتی ہے، اسی طرح یکساں تنخواہ دی جانی چاہئے۔ پراویڈنٹ فنڈ، اضافی تنخواہ کے ساتھ دیگر مراعات اورچھٹیاں دینی چاہئے لیکن جب پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ کی ذاتی معلومات محکمہ تعلیم کو نہیں دی جائےگی تو وہ ان مراعات کو کیسے حاصل کریں گے۔ نجی اسکول انتظامیہ اسی وجہ سے اپنے تدریسی اورغیر تدریسی عملے کی معلومات محکمۂ تعلیم کونہیں دیتے ہیں جس کے نتیجے میں نہ صرف اساتذہ کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے بلکہ تعلیمی معیار گرتا ہے اور طلبہ کی تعلیم اور ان کا مستقبل متاثر ہوتا ہے۔‘‘.
واضح رہےکہ ایم ای پی ایس ایکٹ کے مطابق ان پرائیویٹ ا سکولوں کو ایسے اساتذہ کی تقرری کرنی ہوتی ہے جو تعلیمی اعتبار سےصلاحیت مند اور ٹی ای ٹی پاس ہوں لیکن جن اساتذہ کی ذاتی معلومات کا ریکارڈ نہ ہو، ا ن اساتذ ہ کی اہلیت اور صلاحیت کا کیسے اندازہ لگایاجاسکتاہے؟ جب ان اساتذہ کا ریکارڈہی نہیں ہوگاتو کیسے پتہ چلے گاکہ انہوںنے ٹی ای ٹی( ٹیچرایلی جبلٹی ٹیسٹ) پاس کیا ہے یا نہیں؟ اس طرح کے متعدد سوالات ہیں ،جن کی تحقیقات ہونی چاہئے۔ ایم ای پی ایس ایکٹ کے مطابق ان اسکولوں کو ذات پات کی بنیاد پر ریزرویشن کے مطابق اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کی بھرتی کرنا چاہئے لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ آیا اساتذہ کی ذاتی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے ان اصولوں پر عمل کیا گیا ہےیانہیں۔
نتن دلوی نے انقلا ب کو یہ بھی بتایاکہ ’’ یہ سنگین مسئلہ ہے کہ پرائیویٹ آئی سی ایس ای، سی بی ایس ای اور آئی جی بورڈ اسکول جو والدین سے لاکھوں روپے وصول کرتے ہیںلیکن وہ طلبہ کو ایسے اساتذہ کے ذریعہ تعلیم فراہم کرتے ہیں جو ذاتی طور پرحکومت کےمتعلقہ محکمہ تعلیم سے منتخب شدہ نہیں ہیں۔ اس معاملہ میں مناسب تحقیقات اور کارروائی نہیں کی گئی تو ہم ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کریں گے۔‘‘
مذکورہ ۲۶۱؍اسکولوں کے تدریسی اور غیر تدریسی عملےکی تعداد کیاہوگی؟ اس سوال پرنتن دلوی نے کہاکہ اس کی معلومات ابھی نہیں مل سکی ہے لیکن ہر اسکول میں کم ازکم۲۰، ۲۵؍ اسٹاف ممبر ہیں اور ان کی تعداد ہزاروںمیں ہوتی ہے۔‘‘
0 تبصرے