دو دن تک جاری شر انگیزی کے بعد یہاں حالات معمول پر آرہے ہیں۔ بدھ کے دن کوئی نیا مسئلہ پیدا نہیں ہوا بلکہ چہل پہل دکھائی دی اور معمولات زندگی میں بہتری نظر آئی مگر احتیاط کے طور پر الگ الگ جگہ پولیس کا سخت پہرہ نظر آیا۔ مقامی پولیس کے جوانوں کی تعیناتی کے ساتھ ریپڈ ایکشن فورس اور سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے جوانوں کو بھی تعینات کیا گیا ہے۔ ایڈیشنل پولیس کمشنر شریکانت پاٹھک نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ پہلے دن ۱۴؍ افرادکو حراست میں لیا گیا تھا جبکہ توڑ پھوڑ کے معاملے میں ۵؍ افراد کیخلاف ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔
دوسری طرف میر اروڈ کے نیانگر علاقے میںبیک روڈ پر واقع مسجد عمر پر شرپسندوں نے پتھراؤ کیا تھا۔ اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کے لئے مسجد کے امام مولانا عبدالباسط، اقبال مہاڈک، ایڈوکیٹ عبدالشکور، عمر فروٹ والا، ڈاکٹر عظیم الدین، آصف خان، شنہواز صدیقی اور اعجاز خطیب پہنچے۔ نمائندہ انقلاب بھی ان کے ساتھ موجود تھے ۔ سینئر انسپکٹر ولاس سوپے نے اس تعلق سے کہا کہ پولیس نے از خود نوٹس لیتے ہوئےایف آئی آر درج کرلی ہے لیکن ایف آئی آر کی کاپی کا مطالعہ کرنے پر پتہ چلا کہ اس میں مسجد عمر کا نام اور مسجد پر پتھراؤ کا ذکر نہیں ہے بلکہ یہ لکھا گیا ہے کہ بیک روڈ پر دونوں جانب سے پتھراؤ کیا گیا اور وہ بھی تب جب مسجد کے امام مولانا عبدالباسط نے پوری واردات کو پین ڈرائیو میں جمع کرکے پولیس کوپیش کردیا ہے۔اس موقع پر نمائندہ نے کہا کہ عام شہریوں میں یہ ناراضگی ہے کہ پولیس یکطرفہ کارروائی کررہی ہے تو انہوں نےصفائی پیش کی کہ ایسا نہیں ہے بلکہ سی سی ٹی وی فوٹیج کی بنیاد پر کارروائی کی جارہی ہے۔ذمہ داران نے ایمایل اے گیتا جین اور نتیش رانے کے خلاف بھی سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ۔
دوسری طرف میرابھائندر کے پولیس کمشنر مدھوکر پانڈے کی سربراہی میں پولیس کے جوان پہرہ دے رہے ہیں اور ان کے ہی حکم پر کارروائی کی گئی ہے مگر مقامی لوگ اس یکطرفہ کارروائی سے نالاں ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ نہ تو ایف آئی آر درج کی گئی اور نہ ہی دوسری جانب سے کسی کو گرفتار کیا گیا بلکہ۱۴؍ مسلم نوجوانوں کی گرفتار کرلیا گیا۔
0 تبصرے