اقوام متحدہ سے وابستہ دو ڈاکٹروں نے چند ہفتے غزہ پٹی میں گزارے جہاں اسرائیلی حملے شدت اختیار کررہے ہیں۔ ڈاکٹروں نے ایک پریس کانفرس میں بتایا کہ غزہ کے حالات انتہائی نازک ہیں۔ ناکافی طبی عملہ ہزاروں زخمیوں کو بچانے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔ اس علاقے میں دوائیں ہیں نہ بجلی، سرجری اور آپریشن کے آلات ہیں نہ عمارتیں۔ تاہم، ہر شخص اپنے ساتھی کی مدد کرنے کی پوری کوشش کررہا ہے۔
الاحلی اسپتال کی صورتحال
انہوں نے کہا کہ غزہ کے الاحلی اسپتال کی بھی صورتحال تشویشناک ہے۔ میں نے ایسے مریضوں کو دیکھا جو چرچ کے بنچ پر پڑے ہوئے تھے۔ بنیادی طور پر ایک ایسے اسپتال میں مرنے کا انتظار کر رہے تھے جس میں نہ ایندھن تھا، نہ بجلی، نہ پانی، نہ طبی سامان اور ان کی دیکھ بھال کیلئے صرف مٹھی بھر عملہ۔
ناصر میڈیکل کمپلیکس کا حال
شان نے مزید کہا کہ گزشتہ ہفتےخان یونس کے مرکزی اسپتال ناصر میڈیکل کمپلیکس میں مریضوں کی گنجائش کو ۲۰۰؍ فیصد تک بڑھا دیا گیا ہے۔ یہ مجبوری میں ہوا ہے کیونکہ کہیں جگہ نہیں ہے جبکہ مریضوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے جبکہ یہاں صرف ۳۰؍ فیصد عملہ ہے۔ مریض ہر جگہ، راہداریوں میں، فرش پر، ہر جگہ موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مَیں اسپتال میں بموں سے جل جانے والے یونٹ میں گیا جہاں ایک ڈاکٹر ۱۰۰؍ مریضوں کی دیکھ بھال کر رہا تھا۔
رفح کی صورتحال
مصر کی سرحد کے قریب جنوب میں رفح میں بھی، جہاں اسرائیل نے غزہ کے باشندوں کو نقل مکانی پر زور دیا ہے، شان کیسی نے کہا کہ یہاں کی آبادی ۲؍ لاکھ ۷۰؍ ہزار سے بڑھ کر تقریباً ۱۰؍ لاکھ تک پہنچ گئی ہے، اور شہر میں صحت کی سہولیات نہیں ہیں۔ لاکھوں افراد بے گھر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں ۳۶؍ اسپتالوں اور ۲۵؍ہزار طبی عملہ اور ماہرین کا ایک مضبوط طبی نظام تھا لیکن اس علاقے کے ۳ء۲؍ ملین افراد میں سے ۸۵؍ فیصد اب بے گھر ہو چکے ہیں، اور اس میں صحت کے کارکن، ڈاکٹر، نرسیں، سرجن اور انتظامی عملہ بھی شامل ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان میں سے بہت سے طبی پیشہ ور اسپتالوں میں نہیں بلکہ پناہ گاہوں میں ہیں اور رفح میں سڑکوں پر پلاسٹک کی چادر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اسپتال کے ایک ڈائریکٹر نے بتایا کہ ان کے ہاں کا ایک پلاسٹک سرجن اسپتال نہیں آرہا ہے کیونکہ وہ اپنے خاندان کیلئے کھانا پکانے کیلئے لکڑیاں اکٹھا کر رہا ہے۔
غزہ کو امداد کی ضرورت ہے
شان نے کہا کہ غزہ کے دسیوں ہزار زخمیوں اور صحت کے مسائل سے دوچار لوگوں کی مدد کیلئے سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ جنگ بندی اور تحفظ ہے، لیکن صرف انتا کافی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ واقعی مجموعی پیکج ہے۔ طبی سامان کی ترسیل کو رکاوٹوں اور معائنے پر قابو پانے اور غزہ میں داخل ہونے کی ضرورت ہے، اور پھر انہیں اسپتالوں تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔ اسپتالوں کو ایندھن کی ضرورت ہے۔ بغیر بجلی کے آپریشن یا سرجری نہیں کی جاسکتی۔ شان نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت غزہ کے اسپتالوں کی مدد اور دیکھ بھال فراہم کرنے کیلئے بین الاقوامی ہنگامی طبی ٹیموں کو متحرک کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس نے پچھلے چھ ہفتوں کے دوران کئی فیلڈ اسپتالوں کے قیام کی بھی حمایت کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ غزہ کی پٹی سے باہر جانے والے طبی انخلاء کی تعداد بہت محدود ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ایسے ہزاروں لوگ ہیں جو اعلیٰ سطح کی دیکھ بھال سے مستفید ہوں گے جو غزہ پٹی میں مزید فراہم نہیں کی جا سکتی ہیں، بشمول کینسر کے مریض اور پیچیدہ زخموں میں مبتلا افراد۔ لوگ ہر روز مر رہے ہیں۔ میں نے بچوں کو فرش پر مرتے دیکھا ہے کیونکہ ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ میں کوئی سامان نہیں ہے، اور ان کی دیکھ بھال کیلئے کارکنان نہیں ہیں۔
ماہر اطفال ڈاکٹر سیما جیلانی کے تجربات
ایک پریس بریفنگ میں بات کرتے ہوئےڈاکٹر سیما جیلانی، جو ماہر اطفال اور بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی کی سینئر ٹیکنیکل ایڈوائزر برائے ہنگامی صحت ہیں، نے کہا کہ وہ فلسطینیوں کیلئے طبی امداد کے تعاون سے صرف دو ہفتوں کیلئے غزہ گئی تھیں اور انہوں نے جو کچھ دیکھا وہ خوفناک تھا۔ ایک برا اور بھیانک خواب۔ جیلانی اس سے پہلے افغانستان، عراق اور لبنان سمیت متعدد ایسے مقامات پر کام کر چکی ہیں، نے کہا کہ دنیا بھر کے تنازعات والے علاقوں میں کام کرنے کے میرے تجربے میں، میں نے زخمیوں کی اتنی بڑی تعداد اور زخمی بچوں کی اتنی سنگین صورتحال کبھی نہیں دیکھی ہے۔ ان بچوں نے ایسے نقصان اٹھائے ہیں جن کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جیلانی غزہ کے درمیانی علاقے میں واحد اسپتال دیر البلاح کے الاقصیٰ اسپتال کے ایمرجنسی روم میں کام کرتی تھیں۔ اپنے پہلے دن کے متعلق انہوں نے بتایا کہ کم و بیش ایک سال کےلڑکے کو بچانے کی کوشش کی جس کا دائیں بازو اور دائیں ٹانگ اڑا دی گئی تھی۔ اس وقت کوئی دوا بھی نہیں تھی۔ اس کے ساتھ ہی ایک مرتا ہوا آدمی تھا جس پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ جیلانی نے کہا کہ وہ زخمی ہونے والے بچوں کا علاج کرتی ہیں۔ اب وہ نہیں جانتی کہ جن بچوں کو علاج انہوں نے کیا ہے، وہ اس وقت کس حالت میں ہیں۔
0 تبصرے