ڈھاکہ : اس وقت پورا بنگلہ دیش ریزرویشن کی آگ میں جل رہا ہے۔ ہر طرف تشدد کی آگ بھڑکی ہوئی ہے۔ جھڑپوں میں متعدد افراد کی موت اور سینکڑوں کے زخمی ہونے کے بعد ہفتے کے روز پولیس نے دارالحکومت کے کئی حصوں میں گشت کے دوران سخت کرفیو نافذ کر دیا۔ پولیس کو شرپسندوں کو “دیکھتے ہی گولی مارنے” کا بھی حکم دیا گیا ہے۔(جاری)
حکمران عوامی لیگ پارٹی کے جنرل سکریٹری اور ممبر پارلیمنٹ عبید القادر نے کہا کہ کرفیو آدھی رات کو شروع ہوا اور دوپہر 12 بجے سے صبح 2 بجے تک نرمی دی گئی تاکہ لوگوں کو ضروری کام کرنے کی اجازت دی جا سکے۔ توقع ہے کہ یہ اتوار کی صبح 10 بجے تک جاری رہے گا۔ اس مدت کے دوران انتہائی صورتوں میں افسران کو بھیڑ پر گولی چلانے کی اجازت ہوگی۔(جاری)
خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ہفتے کے روز بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کی سنسان سڑکوں پر فوجیوں نے گشت کیا اور حکومت نے تمام دفاتر اور اداروں کو دو دن کے لیے بند رکھنے کا حکم دیا۔ سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن کے خلاف طلبہ کی قیادت میں ہونے والے احتجاج کے دوران اس ہفتے کم از کم 114 افراد کی موت ہوگئی تھی ۔(جاری)
اسپتال کے اعداد و شمار کے مطابق ہفتے کے روز ڈھاکہ کے کچھ علاقوں میں چھٹ پٹی جھڑپوں کے دوران کم از کم چار افراد کی موت ہوگئی ۔ یہ علاقہ مظاہروں کا مرکز رہا ہے اور جہاں سیکورٹی فورسز نے کرفیو نافذ کرنے کے لیے سڑکوں کی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت نے ملک کی صورتحال کے پیش نظر اتوار اور پیر کو “عام تعطیل” کا اعلان کیا ہے اور صرف ہنگامی خدمات کو کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔(جاری)
حکام نے اس سے پہلے بدھ سے یونیورسٹیوں اور کالجوں کو بند کر دیا تھا۔ سرکاری ملازمتوں میں کوٹے کے خلاف طلباء کے غصے کے بعد ملک بھر میں بدامنی پھیل گئی، جس میں پاکستان سے آزادی کے لیے لڑنے والوں کے خاندانوں کے لیے 30 فیصد ریزرویشن بھی شامل تھا۔ حسینہ کی حکومت نے 2018 میں کوٹہ سسٹم کو ختم کر دیا تھا، لیکن ایک عدالت نے اسے گزشتہ ماہ بحال کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے حکومت کی اپیل کے بعد اس فیصلہ کو معطل کر دیا تھا ۔
0 تبصرے