کون ہیں مسود پزشکیان؟ جو بنے ایران کے نئے صدر، ہندوستان کی راہ میں پھول بچھائیں گے یا کانٹے؟

 

تہران: ایران کے سابق صدر ابراہیم رئیسی کی رواں سال صدارت کے دوران ہیلی کاپٹر حادثے میں موت ہوگئی تھی ۔ اس کے بعد ایران کے صدر کے عہدے کا انتخاب ہوا۔ اب ایران کو نیا صدر مل گیا ہے۔ مسعود پزشکیان نے صدارتی انتخاب جیت لیا ہے۔ ہندوستان کے نقطہ نظر سے صدر رئیسی کے دور میں ہندوستان کے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ رشتہ نئی حکومت میں برقرار رہے گا یا پزیشکیان ہندوستان کی راہ میں کانٹے بچھائیں گے۔(جاری)

پزشکیان کی پیدائش 29 ستمبر 1954 کو شمال مغربی ایران کے مہ آباد  میں ایک آذری والد اور کرد ماں کے یہاں پیدا ہوئے۔ وہ آذری زبان بولتے ہیں اور طویل عرصے سے ایران کے وسیع اقلیتی نسلی گروہوں کے معاملات پر توجہ مرکوز کرتے رہے ہیں۔ کئی لوگوں کی طرح انہوں نے ایران-عراق جنگ میں خدمات انجام دیں اور میدان جنگ میں طبی ٹیمیں بھیجیں۔(جاری)

حالانکہ ہندوستان میں ایران کے سفیر ایراج الٰہی نے انتخابی نتائج آنے سے پہلے ہی ہندوستان کے ساتھ تعلقات پر ایران کا موقف پیش کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ایران اور ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی خواہ کوئی بھی اقتدار میں آئے۔ ایران اور ہندوستان ایک اہم بنیادی ڈھانچے کے منصوبہ چابہار بندرگاہ میں شامل ہیں– اور اس معاہدے کا ہمیشہ احترام کیا جائے گا۔ بنیادی ڈھانچے کی ترقی ہمارے دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی بنیادوں میں سے ایک ہے۔(جاری)

ذاتی زندگی میں کرنی پڑی جدوجہد

وہ ہارٹ سرجن بن گئے اور تبریز یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ حالانکہ 1994 میں ان کی اہلیہ، فاطمہ مجیدی اور ایک بیٹی کی ایک کار حادثے میں موت ہوجانے کے بعد ذاتی سانحے نے ان کی زندگی کو نیا موڑ دیا۔ ڈاکٹر نے کبھی دوسری شادی نہیں کی اور اپنے بقیہ دو بیٹوں اور ایک بیٹی کی تنہا پرورش کی۔(جاری)

پزشکیان نے سیاست میں پہلے ملک کے نائب وزیر صحت کے طور پر اور بعد میں اصلاح پسند صدر محمد خاتمی کی انتظامیہ میں وزیر صحت کے طور پر قدم رکھا۔ تقریباً فوراً ہی انہوں نے خود کو بنیاد پرستوں اور اصلاح پسندوں کے درمیان جدوجہد میں شامل پایا۔ ایک فری لانس فوٹوگرافر زہرہ کاظمی کے پوسٹ مارٹم میں حصہ لیا، جو کینیڈین اور ایرانی شہریت رکھتی تھیں۔ تہران کی ایون جیل میں مظاہروں کی تصویر لینے کے دوران انہیں حراست میں لیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور حراست میں ہی ان کی موت ہو گئی تھی۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے