ذرا اسے بھی پڑھ لیں ۔۔۔

 

 (وسیم رضا خان، نائب مدیر نوبھارت)

پچھلے دنوں ایک ویڈیو کلپ نظر سے گزرا جس میں مولانا عمرین محفوظ رحمانی مدظلہ ودھان سبھا الیکشن سے متعلق بات کرتے اور تعمیری سیاست کے سہی معنی ان سیاستدانوں کو سمجھاتے دکھائی دیے جو سمجھتے ہیں کہ روڈ گٹر بنا کر عوام پر احسان کرنے کو تعمیری سیاست کہا جاتا ہے. حقیقت تو یہ ہے کہ صرف مالیگاؤں ہی نہیں، دیکھا جائے تو پورے ہندوستان سے تعمیری سیاست غائب ہو گئی ہے. لیڈران خود کو قوم کا رہنما تو سمجھتے ہیں لیکن قوم کو بنیادی سہولیات دینے کے نام پر کمیشن خوری اور دکانداری کھولے بیٹھے ہیں. سیاست میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی ہوڑ میں سیاست دان بھول جاتے ہیں کہ وہ کس منصب پر فائز ہیں اور کس مقصد کے لیے ہیں.(جاری)

جدید تکنیک اور سوشل میڈیا عوام میں بیداری تو لا رہا ہے لیکن اسی سوشل میڈیا پر جھوٹ، افواہ، فتنہ و فساد کی بھرمار ہے. جب سے بھارتی جنتا پارٹی کے سوشل میڈیا نیٹ ورک نے سیاسی پلیٹ فارم سے مغلظات پھیلانے کا سلسلہ شروع کیا ہے، ساری سیاسی جماعتیں اسی راہ پر چل نکلی ہیں جس سے تعلیم یافتہ طبقہ بھی بچ نہیں سکا. کئی ایسے پلیٹ فارم ہیں جہاں ہر دن ہر لمحہ قوم کے نوجوان سیاسی سماجی مباحثے کرتے اور ایک دوسرے کو لعن طعن کرتے دیکھے اور پڑھے جاتے ہیں. سمجھداری کے گھوڑے تو ایسے دوڑائے جاتے ہیں کہ جیسے ان سے زیادہ سمجھدار، عالم فاضل، عاقل دنیا میں کوئی دوسرا نہیں. ایک جانب ہم تعمیری سیاست، بہترین رہنما اور عادل لیڈر کی تلاش میں ہیں وہیں دوسری طرف ہمیں نے ایسا ماحول بنا کر رکھ دیا ہے کہ یہ خواہش پوری ہونا ممکنات سے پرے دکھائی دیتا ہے.(جاری)

 شہر کی حالیہ سیاسی صورتحال کی بات کریں تو ہر سیاست دان لوک سبھا الیکشن کے وقت سے ہی ایسی ادھیڑ بن میں لگا ہے کہ اپنی امیدواری اور جیت کیلئے ہر طرح کی جائزوناجائز چالیں چلنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہے. جلسے برپا کر کے کوئی گھمنڈ میں چور تقریریں کر رہا تو دوسرا جھوٹ اور ریاکاری بھری باتوں سے گمرہی پھیلا رہا ہے اور عوام اچھی رہنمائی اور لیڈر کی تلاش میں تذبذب میں مبتلا ہے.(جاری)

عوام اگر بیداری کا ثبوت دینا چاہتے ہیں اور مولانا عمرین محفوظ ودھان سبھا الیکشن میں امیدواری کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں تو ہر ایک کو ان کے ساتھ ہونا ہوگا. جس طرح لوک سبھا الیکشن کی امیدوار ڈاکٹر شوبھا بچھاؤ کیلئے تمام پارٹیاں اور لیڈران ایک جھنڈے تلے آئے تھے بالکل اسی طرح ایک امیدوار کی جیت کیلئے سبھی امیدواروں کو قربانی دینی ہوگی تب جا کر سہی رہنمائی اور قوم کا لیڈر مل سکے گا جسے ہو سکتا ہے آنے والے وقتوں میں مسلمانوں کا قومی رہنما بھی تسلیم کر لیا جائے. لیکن اگر ایک قابل امیدوار کے مقابلے میں ہماری قوم سے ہی کوئی دوسرا ناکام لیڈر اپنی امیدواری لے کر میدان میں آ جاتا ہے تو اس سے ثابت ہو جائے گا کہ ہم خود ہی تعمیری سیاست، ترقی اور بہتر رہنمائی نہیں چاہتے.



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے