نئی دہلی: وقف (ترمیمی) بل پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کا پہلا اجلاس جمعرات کو ہوا۔ حکومت ہند کی اقلیتی اور قانون کی وزارتوں کے عہدیداروں نے مسودہ پر اپنی پیشکش پیش کی۔ بی جے پی رکن جگدمبیکا پال کی سربراہی میں ایک 31 رکنی کمیٹی کو لوک سبھا نے بل کی جانچ کا کام سونپا گیاہے جس کی اپوزیشن جماعتوں اور مسلم تنظیموں نے مخالفت کی ہے۔ آج کی میٹنگ کے بعد وزارت کے حکام نے کہا کہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے اراکین اس معاملے میں کچھ سننے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ ساتھ ہی ارکان کی جانب سے یہ الزام لگایا گیا کہ افسران پریزنٹیشن دینے کے لیے بغیر تیاری کے پہنچے تھے۔(جاری)

ذرائع سے موصولہ اطلاع کے مطابق میٹنگ میں کئی ارکان اقلیتی امور کی وزارت کی پیشکش سے غیر مطمئن نظر آئے۔ اجلاس میں یہ معاملہ اٹھاتے ہوئے اپوزیشن ارکان کا کہنا تھا کہ وزارت کے نمائندے خود تیار ہوکر نہیں آئے تھے اور چیزیں بیان کرنے کے قابل نہیں تھے۔ جمعیۃ علماء ہند کے سربراہ مولانا ارشد مدنی اور دیگرعلماء کرام سے صحافیوں نے سوال کیا کہ کیا وہ وقف بورڈ پر کانگریس اور دیگر جماعتوں کی مخالفت سے مطمئن ہیں؟ اس پر انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے ایجنڈے پر قائم ہیں، جس میں انہوں نے کہا کہ وہ ہر مذہب کے لوگوں کو اپنےمذہب پر چلنے کی آزادی دیں گے۔(جاری)
سیکولر جماعتوں کی طرف سے آپ کو کس قسم کا ردعمل ملا؟
ارشد مدنی سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں سیکولر جماعتوں کی جانب سے کوئی جواب موصول ہوا ہے؟ اس پر انہوں نے کہا کہ میں نے کبھی نہیں کہا کہ وہ مسلم ووٹوں کی وجہ سے جیتے یا مسلم اتحاد کی وجہ سے ناکام ہوئے۔ سیکولر جماعتوں کے اتحاد نے اعلان کیا تھا کہ وہ ہر مذہب کے لوگوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی دیں گے۔ یہ ہر اقلیت کے لیے قابل قبول ہے اور ہمارے لیے بھی قابل قبول ہے۔ وہیں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ ‘ہمیں اس اجلاس کی دعوت نہیں ملی ہے۔ ہم نے اس کے لیے ایک دستاویز تیار کی ہے۔ تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بل واپس ہونا چاہیے۔ ہم نے قربانیاں دی ہیں اور پوچھا ہے کہ آپ بتائیں کہ آزادی کے بعد ملک کے رسم و رواج کیا ہوں گے؟(جاری)
ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت پیدا کی جا رہی ہے۔
مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ الیکشن جیتنے کے لیے ہندوؤں اور مسلمانوں میں نفرت پیدا کر کے الیکشن جیتا جا سکتا ہے۔ تاہم ان کا مقصد کامیاب نہیں ہو سکا۔ ملک کے لوگوں نے محسوس کیا کہ یہ خطرناک ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ بی جے پی جو اقتدار میں تھی شکست کھا گئی۔ اقتدار کی چوٹی پر بیٹھا شخص نفرت پیدا کرتا ہے تو یہ ملک کے لیے خطرناک چیز ہے۔ اقتدار میں رہنے والے ہر اقلیت کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔
0 تبصرے