نئی دہلی : سپریم کورٹ نے منگل کو جیسے ہی ‘بلڈوزر ایکشن’ پر پابندی لگانے کا حکم دیا، سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے اس پر اعتراض کیا اور کہا کہ سرکاری افسران کے ہاتھ اس طرح نہیں باندھے جا سکتے۔ تاہم بنچ نے نرم رویہ اختیار کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ‘بلڈوزر ایکشن’ کو دو ہفتوں تک روک دیا جائے تو کوئی ‘آسمان نہیں گرجائے گا’۔ جسٹس گوائی نے پوچھا: ’’ اپنے ہاتھ کو روک لیں۔ پندرہ دنوں میں کیا ہوجائے گا؟(جاری)
دراصل سپریم کورٹ نے حکام کو ہدایت دی ہے کہ ملک بھر میں اس کی اجازت کے بغیر فوجداری مقدمات کے ملزمین کی جائیدادوں کو منہدم نہیں کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ اگر غیر قانونی طور پر ایسا کرنے کا ایک بھی معاملہ ہے تو یہ ہمارے آئین کی اقدار کے خلاف ہے۔(جاری)
ساتھ ہی سپریم کورٹ نے سالیسٹر جنرل (ایس جی) سے کہا ہے کہ وہ بلڈوزر کارروائی کی تعریف کرنا بند کریں۔ انہوں نے کہا کہ بلڈوزر کو گلوریفائی کرنے کا کام کیا گیا ہے۔ اگر آپ کسی عوامی سڑک یا ریلوے لائن پر واقع مندر یا گرودوارہ یا مسجد کو گرانا چاہتے ہیں تو ہم آپ سے متفق ہوں گے، لیکن کسی اور صورت میں اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔(جاری)
جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس کے وی وشواناتھن کی ڈویژن بنچ نے مرکز سے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ میونسپل کارپوریشن کے قوانین اور طریقہ کار کی صحیح طریقے سے پیروی کی جائے۔ حالانکہ سالیسٹر جنرل (ایس جی) نے اس حکم پر اعتراض کیا۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے تین مہینوں میں مختلف ریاستوں میں نوٹس جاری کیے گئے ۔ میں پورے ملک کو ایسا کرنے کے لیے نہیں کہہ سکتا۔ اس پر جسٹس گوائی نے کہا کہ میں ایسا حکم آئین کے آرٹیکل 142 کے تحت دے رہا ہوں۔ آپ دو ہفتے تک اپنا ہاتھ کیوں نہیں روک سکتے؟(جاری)
سالیسٹر جنرل نے کہا کہ براہ کرم حکم میں بتائیں کہ طریقہ کار پر عمل کیے بغیر انہدام کی کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ اس پر جسٹس کے وی وشواناتھن نے کہا کہ اگر غیر قانونی انہدام کا ایک بھی معاملہ ہے تو یہ آئینی اقدار کے خلاف ہے۔ آپ اپنے ہاتھ روک لیں گے تو آسمان نہیں گرے گا۔ آپ ایک ہفتہ تک انتظار کر سکتے ہیں۔ اس کیس کی اگلی سماعت یکم اکتوبر کو ہوگی۔
0 تبصرے