-7 نوٹس، 44 پیشیاں اور 14 سال، شملہ مسجد تنازع میں آج اہم دن، سنجولی میں پولیس الرٹ

 

شملہ : ہماچل پردیش کی راجدھانی شملہ کے سنجولی میں بنی مسجد میں تعمیرات کا معاملہ مسلسل سرخیوں میں چھایا ہوا ہے۔ اب ہفتہ کا دن اس معاملے میں ایک اہم دن ہے۔ ہفتہ کو میونسپل کارپوریشن کمشنر کی عدالت میں اس معاملے میں 45 پیشیاں ہونے والی ہیں۔ ایسے میں ملک اور ریاست کی نظریں اس سماعت پر لگی ہوئی ہیں۔ اس سے پہلے جمعرات کو سنجولی میں اس کو لے کر ہنگامہ ہوا تھا اور ہندو تنظیموں کے لوگوں نے یہاں احتجاج کیا تھا۔معلومات کے مطابق سنجولی میں مسجد کی تعمیر پر سماعت ہفتہ کی صبح 10 بجے سے کورٹ-42 میں ہوگی۔ یہاں کمشنر میونسپل کارپوریشن کیس کی سماعت کریں گے۔ اس وقت یہ کیس فہرست میں 13ویں نمبر پر ہے۔(جاری)

 بار نوٹس، 44 سماعت
سنجولی میں مسجد کا تنازع کوئی نیا معاملہ نہیں ہے۔ یہ مقدمہ گزشتہ 14 سالوں سے میونسپل کورٹ میں چل رہا ہے۔ یہاں صرف تاریخ پر تاریخ ہی دی جارہی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ معاملہ سب سے پہلے 2010 میں کارپوریشن کے پاس پہنچا تھا۔ اس کے بعد کارپوریشن نے مسجد فریق کو سات نوٹس دئے۔ حیران کن طور پر 2023 میں یہ بات سامنے آئی کہ جس شخص کو نوٹس دیے گئے اور فریق بنایا گیا ، اس کا مسجد سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔(جاری)

بعد میں وقف بورڈ کو فریق بنایا گیا۔ الزام ہے کہ شکایت کے بعد بھی مسجد میں تعمیرات کا کام جاری رہا لیکن کانگریس اور بی جے پی دونوں حکومتیں اس معاملے پر سوتی رہیں۔ اب جب نیا تنازع ہوا ہے تو بی جے پی اور کانگریس دونوں کی طرف سے بیانات دیئے جارہے ہیں۔ سکھو حکومت کے وزیر انیرودھ سنگھ نے ایوان میں بتایا کہ یہاں بنائی گئی مسجد غیر قانونی ہے اور یہ ہماچل حکومت کی زمین ہے۔ زمین پر ناجائز قبضہ کیا گیا ہے۔(جاری)

دو دن کا الٹی میٹم
ادھر جمعرات کو سنجولی میں ہندو جاگرن منچ نے مسجد کو لے کر ہنگامہ کیا تھا۔ یہاں مارچ نکالا گیا تھا۔ شملہ شہر جام ہو گیا تھا۔ اس دوران ہندو جاگرن منچ نے اس معاملے میں حکومت کو دو دن کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا تھا کہ مسجد کو یہاں سے ہٹا دیا جائے۔ اب یہ الٹی میٹم ہفتہ کو ختم ہو رہا ہے۔(جاری)

سنجولی میں پولیس فورس تعینات
مسجد تنازع کی سماعت کے پیش نظر پولیس نے سنجولی میں اضافی نفری تعینات کر دی ہے۔ پولیس نے تین دن سے یہاں پہرہ بڑھا دیا ہے۔ تاہم حالات پرسکون ہیں اور کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔ لوگ بھی سکون سے رہ رہے ہیں۔ لیکن پولیس محتاط ہے۔ دوسری جانب یہ کیس ملک بھر میں سرخیوں میں ہے۔ یہ معاملہ دو دن سے قومی میڈیا میں چھایا ہوا ہے۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے