ہندوستانی وزیر خارجہ ایس جے شنکر ایس سی او کانفرنس میں شرکت کیلئے پہنچے پاکستان

 

اسلام آباد : وزیر خارجہ ایس جے شنکر شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کی کانفرنس میں شرکت کے لیے منگل کو اسلام آباد پہنچے۔ گزشتہ کئی سالوں میں کسی سینئر ہندوستانی وزیر کا یہ پہلا دورہ پاکستان ہے۔ جے شنکر کا نور خان ایئربیس پر سینئر پاکستانی حکام نے استقبال کیا۔ راولپنڈی ایئرپورٹ پر جے شنکر کا شاندار سویگ دیکھنے کو ملا ۔ ہندوستانی وزیر خارجہ نے سب سے پہلے پاکستانی حکام سے مصافحہ کیا۔ انہوں نے ان کا دیا گلدستہ قبول کیا اور پھر اپنی جیب سے کالا چشمہ نکال کر پہن لیا۔(جاری)

گزشتہ نو سالوں میں یہ پہلا موقع ہے جب ہندوستان کے وزیر خارجہ نے پاکستان کا دورہ کیا ہے۔ پاکستان کا دورہ کرنے والی آخری ہندوستانی وزیر خارجہ سشما سوراج تھیں۔ انہوں نے دسمبر 2015 میں افغانستان پر ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد کا سفر کیا تھا۔ اس کے بعد مسئلہ کشمیر اور پاکستان کی جانب سے سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کے حوالے سے دونوں ممالک کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں۔(جاری)

وزارت خارجہ (ایم ایل اے) نے کہا کہ ایس سی او سی ایچ جی اجلاس ہر سال منعقد ہوتا ہے اور اس میں تنظیم کے تجارتی اور اقتصادی ایجنڈے پر توجہ دی جاتی ہے۔ وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ وزیرخارجہ ایس جے شنکر اجلاس میں ہندوستان کی نمائندگی کریں گے ۔ ہندوستان ایس سی او میں فعال طور پر شامل ہے، جس میں ایس سی او فریم ورک کے اندر مختلف میکانزم اور اقدامات شامل ہیں ۔(جاری)

سینئر وزیر کو بھیجنے کے فیصلے کو شنگھائی تعاون تنظیم کے ساتھ ہندوستان کی وابستگی کے مظاہرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس معاملے سے باخبر لوگوں کا کہنا ہے کہ شام کو جے شنکر پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے ایس سی او کے رکن ممالک کے نمائندوں کے استقبال کے لیے دیے گئے عشائیے میں بھی شرکت کر سکتے ہیں۔ دونوں فریقوں نے پہلے ہی ایس سی او سربراہان حکومت کے سربراہی اجلاس کے موقع پر جے شنکر اور ان کے پاکستانی ہم منصب اسحاق ڈار کے درمیان دو طرفہ بات چیت کو مسترد کر دیا ہے۔(جاری)

جے شنکر کے دورہ پاکستان کو اہم قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ اسے نئی دہلی کے ایک اہم فیصلے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ جے شنکر نے حال ہی میں ایک پروگرام میں کہا تھا کہ ‘کسی بھی پڑوسی کی طرح ہندوستان بھی پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا چاہے گا۔ لیکن سرحد پار دہشت گردی کو نظر انداز کر کے ایسا نہیں ہو سکتا۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے