سنبھل: اترپردیش کے سنبھل ضلع کی شاہی جامع مسجد میں سروے کے دوران ہوئے تشدد کے سلسلے میں شاہی جامع مسجد کمیٹی کے چیئرمین ظفر علی کو پولیس نے حراست میں لے لیا۔ ظفر علی نے کچھ دیر پہلے ایک پریس کانفرنس میں ایس ڈی ایم سنبھل کو سنبھل میں ہوئے تشدد کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ بتادیں کہ تشدد میں اب تک چار لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ دو الگ الگ تھانوں میں کل 12 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ 25 افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ پولیس کی ایف آئی آر میں تقریباً 2500 افراد نامعلوم ہیں اور 8 نامزد ہیں، ہیں جن میں ایم پی ضیاء الرحمان برق کا نام بھی شامل ہے۔(جاری)
تشدد کی جانچ پر تبصرہ کرتے ہوئے سنبھل کے ضلع مجسٹریٹ راجندر پنسیا نے کہا کہ ہمیں لگتا ہے کہ راتوں رات اس کی منصوبہ بندی کی گئی ہو گی۔ ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے ۔ تاہم جب تفصیل سے جانچ کی جائے گی تو حقیقت پتہ چلے گی۔ یہ بھی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ تشدد کے دوران جن چار افراد کی موت ہوئی ہے، وہ پولیس کی گولی سے نہیں ہوئی بلکہ بلکہ طمنچہ کی گولی سے ہوئی ہے۔(جاری)
پولیس نے سنبھل کے ایم پی ضیاء الرحمان برق اور سنبھل ایم ایل اے کے بیٹے کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کی ہے۔ ایس پی کرشنا کمار نے کہا کہ تشدد اشتعال انگیز بیان کی وجہ سے ہوا۔ یہاں تک کہ پولیس کا میگزین بھی لوٹ لیا گیا۔ مراد آباد زون کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس منیراج جی نے پیر کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ اتوار کو تشدد میں زخمی ہونے کے بعد مراد آباد میں زیر علاج ایک اور شخص کی موت ہو گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جلد ہی لاش کا پوسٹ مارٹم کیا جائے گا۔(جاری)
0 تبصرے