اگر ملک میں اسطرح فیصلے لئے گئے تو عبادت گاہوں کا ایکٹ محض ایک ڈیڈ لیٹر بن کر رہ جائیگا ۔ بیرسٹر اسدالدین اویسی

 

ملک میں مسلمانوں  کے انصاف کی خاطر روز اول سے حکومت اور عدلیہ سے بحث و مباحثہ کرنے والی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین یہ ایک ایسی واحد سیاسی پارٹی ہے جو ملک کے تمام مسائل پر ہمشیہ سوال کھڑی کرتی ہے اور عدلیہ سے انصاف طلب کرتی ہے ۔ ایسا ہی ایک معاملہ ان دنوں سامنے آیا ہے ۔ جس میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بیرسٹر اسدالدین اویسی نے اپنے ٹوئیٹر کے ذریعے اس خبر کو عام کیا اور موجودہ حکومت سے انصاف کی گہار لگا رہے ہیں ۔ (جاری)

معلوم ہوکہ بابری مسجد کی شہادت کا ہونا ملک کے مسلمانوں کے دل میں ایک تازہ زخم کی طرح بیٹھ گیا ہے ۔ اس معاملے میں حکومت کی جانب سے زمین بھی دی گئی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر بھی تعمیر کردیا گیا ۔ یہ بات صاف ہیکہ مجلس اتحاد المسلمین کے بیرسٹر اسدالدین اویسی واحد شخص ہیں جو لوک سبھا میں اکیلے بابری مسجد کی شہادت کا نعرہ آج بھی بلند کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہیکہ مسلمانوں کو ان کا ساتھ دینا چاہیئے ۔ (جاری)

اسدالدین اویسی نے اپنے ٹوئیٹر میں دو دن قبل ایک مسجد کا ذکر کرتے ہوئے حکومت ہند کو آڑے ہاتھوں لیا ہے ۔

-----------------------------
اسد الدین اویسی
‏@asadowaisi‏
بابری مسجد کے فیصلے نے ہندوتوا گروپوں کو ہندوستان بھر میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔

یوپی کے سنبھل کے چندوسی میں واقع شاہی جامع مسجد کا معاملہ دیکھ لیں۔ درخواست جمع کرائے جانے کے تین گھنٹے کے اندر، سول جج نے مسجد کی جگہ پر ابتدائی سروے کا حکم دیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا مسجد کی تعمیر کے لیے مندر کو گرایا گیا ہے۔ درخواست ایک وکیل نے دی جو سپریم کورٹ میں یوپی حکومت کے اسٹینڈنگ وکیل ہیں۔ سروے اسی دن کیا گیا۔ اس طرح عدالتی حکم کے ایک گھنٹے کے اندر بابری کے تالے بھی دوسری طرف سنے بغیر کھل گئے۔

یہ "رفتار" عام معاملات میں نہیں دکھائی جاتی ہے۔ اگر عدالتیں اس طرح کے احکامات پر عمل درآمد کرتی رہیں تو عبادت گاہوں کا ایکٹ محض ایک ڈیڈ لیٹر ہے۔ ایکٹ کا مقصد اس طرح کی قانونی چارہ جوئی کو عدالتوں تک پہنچنے سے روکنا تھا۔

سیکڑوں سالوں سے اس طرح استعمال ہونے والی مسجد کو محرک اور فرقہ وارانہ قانونی چارہ جوئی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عدالتوں کو اس کا خاتمہ کرنا چاہیے۔

شام 7:47 20 نومبر، 2024
-----------------------------
انہوں نے اپنے ٹوئیٹر میں سنبھل کی شاہی مسجد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں چندوسی میں واقع شاہی مسجد کا معاملہ سامنے آیا ہے ۔ جہاں جج نے درخواست جمع کروائے جانے کے تین گھنٹے کے بعد ہی مسجد کا جائزہ لینے کیلئے ٹیم بھیج دی اور یہ ثابت بھی کردیا گیا کہ اس مسجد کو تعمیر کرنے کیلئے یہاں موجود مندر کو زمین بوس کیا گیا تھا ۔ (جاری)

اسدالدین اویسی نے اس معاملے میں یہ استدلال ظاہر کیا کہ اتنی تیزی سے اس مسجد کی جانچ کیوں کی گئی ۔ اگر حکومت ہند کی عدالتیں اس طرح کے احکامات پر عمل درآمد کرتی رہی تو ہماری عبادت گاہوں کا ایکٹ محض ایک ڈیڈ لیٹر بن کر رہ جائیگا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ سینکڑوں سال پرانی اس مسجد کو محرک اور فرقہ وارانہ قانونی چارہ جوئی کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ ملک کی عدالتوں کو اس کا خاتمہ کرنا چاہیے ۔

معلوم ہوکہ اسدالدین اویسی نے اپنے ٹوئیٹر پر یہ ٹوئیٹ کل بروز بدھ 20 نومبر کو شام 7 بجکر 47 منٹ پر کیا ہے ۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے