درگاڈی قلعہ میں مندر تھا یا مسجد؟ 48 سال بعد عدالت نے سنایا فیصلہ، جانئے پورا معاملہ

 

مہاراشٹر کے تھانے میں واقع تاریخی درگاڈی قلعے کو لے کر بڑا فیصلہ سامنے آیا ہے۔ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ قلعے کے اندر مسجد ہے، لیکن کلیان عدالت نے منگل کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ قلعے میں مسجد نہیں بلکہ مندر ہے۔ یہ فیصلہ 48 سال بعد آیا ہے جو کافی موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ بی جے پی اور ہندو تنظیموں نے عدالت کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔(جاری)

دراصل پچھلے 48 سالوں سے درگاڈی قلعہ میں واقع عمارت کے مندر اور مسجد ہونے کو لے کر دو مذاہب کے درمیان لڑائی کلیان ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں چل رہی تھی ۔ پہلے یہ دعوی تھانہ ڈسٹرکٹ کوٹ میں زیر التوا تھا، جس کے بعد کلیان کلیان ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں دعوی دائر کیا گیا تھا ۔ عرضی گزار دنیش دیشمکھ نے کہا کہ 1971 میں تھانہ ضلع کلیکٹر نے اعلان کیا تھا کہ درگاڈی قلعہ میں ایک مندر ہے ۔ اس کے بعد اس جگہ کو مندر کی مسجد بتانے کیلئے جانچ کی عرضی دائر کی گئی تھی ۔ اس دعوی میں ایڈوکیٹ بھاؤصاحب مودک نے کیس کی پیروی کی تھی ۔ مسجد میں کھڑکیاں نہیں ہیں، یہاں مندر کی کھڑکیاں ہیں۔ یہاں مورتیاں رکھنے کیلئے ایک مندر (چوتھارا) ہے ، اس لئے سرکار نے اعلان کیا تھا کہ اس جگہ پر ایک مندر ہے ۔(جاری)

وہیں 1975 – 76 میں مسلم برداری کی جانب سے ٹھانہ ضلع عدالت میں عرضی داخل کی گئی تھی کہ درگاڈی قلعہ مندر نہیں بلکہ مسجد ہے ۔ اس کے بعد دو سال تک یہ دعوی چلتا رہا ۔ اس کے بعد یہ دعوی کلیان ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں منتقل کردیا گیا ۔ دیگر مذہبی لوگوں نے مطالبہ کیا کہ یہ دعوی کلیان ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ سے وقف بورڈ کو منتقل کردیا جائے ۔ عرضی گزار دنیش دیشمکھ نے بتایا کہ عدالت نے اس مطالبہ کو خارج کردیا ہے اور سرکار کے پہلے کے فیصلہ کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ درگاڈی قلعہ پر مندر ہے ۔(جاری)

وہیں بی جے پی لیڈروں نے عدالت کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ ڈومبیولی کے ایم ایل اے رویندر چوان نے فیصلے کا خیر مقدم کیا اور عدالت کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی حکومت کو اب عدالت کے فیصلے کو صحیح طریقے سے نافذ کرنا چاہئے۔ فی الحال یہ جائیداد کلیان میونسپل کونسل کے قبضے میں ہے۔ یہاں نوراتری کے موقع پر شیوسینا انتظامیہ سے اجازت لے کر بڑے پیمانے پر پوجا اور میلے کا اہتمام کرتی ہے۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے