نئی دہلی: سپریم کورٹ بدھ کو وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی متعدد عرضیوں پر سماعت کرے گا۔ ان میں اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اسدالدین اویسی، عام آدمی پارٹی کے رہنما امانت اللہ خان، راشٹریہ جنتا دل کے رکن پارلیمان منوج جھا اور ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمان مہوا موئترا سمیت دیگر کی عرضیاں شامل ہیں۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے اب تک اس معاملے میں 10 عرضیوں کو سماعت کے لیے فہرست میں شامل کیا ہے۔(جاری)
عرضی گزاروں کی فہرست:
سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اہم عرضیوں میں درج ذیل اہم عرضی گزار شامل ہیں۔
اسدالدین اویسی (اے آئی ایم آئی ایم صدر)
امانت اللہ خان (عام آدمی پارٹی رہنما)
ارشد مدنی
ایسوسی ایشن فار دی پروٹیکشن آف سول رائٹس
سمست کیرالا جمعیت العلماء
انجم قادری
طیّب خان سلمانی
محمد شفی
محمد فضل الرحیم
منوج جھا (راجد رکن پارلیمان)
مہوا موئترا (ترنمول کانگریس رکن پارلیمان)
ضیاء الرحمٰن برق (سماج وادی پارٹی رکن پارلیمان، سنبھل)
جگن موہن ریڈی (وائی ایس آر سی پی رہنما)
بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی (بھاکپا)
وجے (تملگا ویتری کلگم کے صدر)
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
جمعیت العلماء ہند
دراوڑ منیتر کژگم (ڈی ایم کے)
عمران پرتاپ گڑھی (کانگریس رکن پارلیمان)
محمد جاوید
اس فہرست میں شامل ابتدائی 10 عرضیوں کو سماعت کے لیے فہرست میں شامل کیا گیا ہے، جبکہ باقی عرضیوں کو ابھی فہرست میں شامل کیا جانا باقی ہے۔ اس کے علاوہ وکیل ہری شنکر جین اور منی منجال نے بھی ایک علیحدہ عرضی دائر کی ہے جس میں وقف قانون کی بعض دفعات کو غیر مسلموں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ان کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا گیا ہے۔ کئی دیگر عرضیاں بھی دائر کی گئی ہیں جنہیں ابھی فہرست میں شامل کیا جانا باقی ہے۔(جاری)
مرکزی حکومت کا ردعمل:
مرکزی حکومت نے 8 اپریل کو سپریم کورٹ میں ایک کیویٹ دائر کی تھی، جس میں گزارش کی گئی کہ اس معاملے میں کوئی بھی حکم جاری کرنے سے پہلے حکومت کا موقف ضرور سنا جائے۔ کیویٹ کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ عرضی گزار کی غیر موجودگی میں کوئی حکم جاری نہ ہو۔ مرکز نے حال ہی میں وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کو نوٹیفائی کیا تھا، جس کے بعد یہ تنازعہ کھڑا ہوا ہے۔(جاری)
عرضیوں کے اہم دلائل:
اسدالدین اویسی کی عرضی میں دلیل دی گئی ہے کہ وقف کو دیے گئے تحفظ کو کم کرنا مسلمانوں کے ساتھ امتیاز ہے اور یہ آئین کے آرٹیکل 14 (برابری کا حق) اور آرٹیکل 15 (مذہب کی بنیاد پر امتیاز پر پابندی) کی خلاف ورزی ہے۔ دیگر عرضی گزاروں نے بھی ایکٹ کی دفعات کو آئین کی مختلف شقوں کے منافی قرار دیتے ہوئے اس کی آئینی حیثیت پر سوال اٹھائے ہیں۔ وکیل ہری شنکر جین اور منی منجال کی عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وقف قانون کی کچھ دفعات غیر مسلموں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔(جاری)
اب عدالت میں کیا ہوگا؟
سات /7 اپریل کو چیف جسٹس کی سربراہی والی بنچ نے جمعیت العلماء ہند کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل کو عرضیوں کی فہرست سازی پر غور کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اس کے علاوہ اے آئی ایم پی ایل بی نے 6 اپریل کو اپنی عرضی دائر کی تھی۔ سپریم کورٹ میں اس معاملے کی سماعت بدھ کو ہوگی جس میں تمام فہرست شدہ عرضیوں پر بیک وقت غور کیا جائے گا۔ دیگر عرضیاں جو ابھی فہرست میں شامل نہیں ہوئی ہیں، انہیں بھی مستقبل میں سماعت کے لیے شامل کیا جا سکتا ہے۔
0 تبصرے